یہاں سے شہر کو دیکھو

فیض احمد فیض


یہاں سے شہر کو دیکھو تو حلقہِ در حلقہ
کھنچی ہے جیل کی صورت ہر ایک سمت فصیل
ہر ایک راہ گزر گردشِ اسیراں ہے
نہ سنگِ میل، نہ منزل، نہ ؐمخلصی کی سبیل
جو کوئی تیز چلے رہ تو پوچھتا ہے خیال
کہ ٹوکنے کوئی للکار کیوں نہیں آئی
جو کوئی ہاتھ ہلائے تو وہم کو ہے سوال
کوئی چھنک، کوئی جھنکار کیوں نہیں آئی
یہاں سے شہر کو دیکھو تو ساری خلقت میں
نہ کوئی صاحبِ تمکیں، نہ کوئی والی ہوش
ہر ایک مردِ جواں مجرمِ رسن بہ گلو
ہر اک حسینہء رعنا، کنیزِ حلقہ بگوش
جو سائے دور چراغوں کے گرد لرزاں ہیں
نہ جانے محفلِ غم ہے کہ بزمِ جام و سبو
جو رنگ ہر در و دیوار پر پریشاں ہے
یہاں سے کچھ نہیں کھلتا یہ پھول ہیں کہ لہو
کراچی، مارچ 1965ء
 
فہرست