پاؤں سے لہو کو دھو ڈالو

فیض احمد فیض


ہم کیا کرتے کس رہ چلتے
ہر راہ میں کانٹے بکھرے تھے
ان رشتوں کے جو چھوٹ گئے
ان صدیوں کے یارانوں کے
جو اک اک کر کے ٹوٹ گئے
جس راہ چلے ، جس سمت گئے
یوں پاؤں لہو لہان ہوئے
سب دیکھنے والے کہتے تھے
یہ کیسی ریت رچائی ہے
یہ مہندی کیوں لگائی ہے
وہ کہتے تھے ، کیوں قحطِ وفا
کا ناحق چرچا کرتے ہو
پاؤں سے لہو کو دھو ڈالو
یہ راہیں جب اٹ جائیں گی
سو رستے ان سے پھوٹیں گے
تم دل کو سنبھالو جس میں ابھی
سو طرح کے نشتر ٹوٹیں گے
 
فہرست