فکر انجام نہ آغاز کا کچھ
ہوش رہا
چار دن تک تو جوانی کا عجب
جوش رہا
میں قفس میں بھی کسی روز نہ
خاموش رہا
کشمکش میں بھی طبیعت کا وہی
جوش رہا
نشۂ الفت ساقی کا عجب
جوش رہا
ہول صحرائے قیامت بھی
فراموش رہا
غیر ہوں جرعہ کش بزم تمنا افسوس
خون کے گھونٹ میں پیتا رہا
خاموش رہا
ہیچ آفت نرسد گوشۂ تنہائی را
دشتِ غربت میں میں یہ سونچ کے
روپوش رہا
موسمِ گل کی ہوا داروئے بے ہوشی تھی
سر اٹھانے کا بھی سبزے کو نہ کچھ
ہوش رہا
نکہتِ گل کی طرح جامے سے باہر ہوں گا
فصلِ گل کا جو گلستاں میں یہی
جوش رہا
بحر رحمت میں بہت ہو گا تلاطم برپا
تجھ کو اے اشکِ ندامت جو یہی
جوش رہا
اپنے سر سے بھی کسی روز گزر جائے گا
آب شمشیر کو قاتل جو یہی
جوش رہا
سایۂ دامن قاتل میں جو نیند آئی مجھے
پھر تو کروٹ بھی بدلنے کا نہ کچھ
ہوش رہا
دھوم سنتا رہا اب آتے ہیں اب آتے ہیں
حشر تک میں یوں ہی کھولے ہوئے
آغوش رہا
دور کھنچتی ہی گئی منزلِ مقصود مگر
رہرو عشق کی ہمت کا وہی
جوش رہا
رحمتِ حق رہی ہم عاصیوں پر سایہ فگن
سر پہ چھایا ہوا اک ابر خطا
پوش رہا
اٹھتے اٹھتے تھی وہی بزم کی مستانہ روش
چلتے چلتے بھی خمِ مے کو وہی
جوش رہا
پھر گئیں آنکھیں مری کوچۂ جاناں کی طرف
شکر ہے مرتے دم اتنا تو مجھے
ہوش رہا