سو رہتا ہے بہ اندازِ چکیدن سر نگوں وہ بھی

مرزا غالب


بساطِ عجز میں تھا ایک دل یک قطرہِ خوں وہ بھی
سو رہتا ہے بہ اندازِ چکیدن سر نگوں وہ بھی
رہے اس شوخ سے آزردہ ہم چندے تکلف سے
تکلف بر طرف، تھا ایک اندازِ جنوں وہ بھی
خیالِ مرگ کب تسکیں دل آزردہ کو بخشے
مرے دامِ تمنا میں ہے اک صیدِ زبوں وہ بھی
نہ کرتا کاش نالہ مجھ کو کیا معلوم تھا ہمدم
کہ ہو گا باعثِ افزائشِ دردِ دروں وہ بھی
نہ اتنا برشِ تیغِ جفا پر ناز فرماؤ
مرے دریائے بیتابی میں ہے اک موجِ خوں وہ بھی
مئے عشرت کی خواہش ساقیِ گردوں سے کیا کیجے
لیے بیٹھا ہے اک دو چار جام واژگوں وہ بھی
مرے دل میں ہے غالب شوقِ وصل و شکوۂِ ہجراں
خدا وہ دن کرے جو اس سے میں یہ بھی کہوں، وہ بھی
فہرست