زندگی کی ہنسی اڑاتے ہیں

باقی صدیقی


بات پر اپنی ہم جب آتے ہیں
زندگی کی ہنسی اڑاتے ہیں
شبِ غم کا کوئی سوال نہیں
نیند آئے تو سو بھی جاتے ہیں
جانتے ہیں مال غم پھر بھی
لوگ کیا کیا فریب کھاتے ہیں
راستہ بھولنا تو ہے اک بات
راہرو خود کو بھول جاتے ہیں
بات کو سوچتے نہیں باقیؔ
لوگ جب داستاں بناتے ہیں
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع
فہرست