قاتل

جون ایلیا


سنا ہے تم نے اپنے آخری لمحوں میں سمجھا تھا
کہ تم میری حفاظت میں ہو میرے بازوؤں میں ہو
سنا ہے بجھتے بجھتے بھی تمہارے سرد و مردہ لب سے
ایک شعلہ شعلۂ یاقوت فام و رنگ و امید فروغ زندگی آہنگ لپکا تھا
ہمیں خود میں چھپا لیجے
یہ میرا وہ عذابِ جاں ہے جو مجھ کو
مرے اپنے خود اپنے ہی جہنم میں جلاتا ہے
تمہارا سینۂ سیمیں
تمہارے بازوان مرمریں
میرے لیے
مجھ اک ہوس ناک فرومایہ کی خاطر
ساز و سامان نشاط و نشۂ عشرت فزونی تھے
مرے عیاش لمحوں کی فسوں گر پر جنونی کے لیے
صد لذت آگیں صد کرشمہ پر زبونی تھے
تمہیں میری ہوس پیشہ
مری سفاک قاتل بے وفائی کا گماں تک
اس گماں کا ایک وہم خود گریزاں تک نہیں تھا
کیوں نہیں تھا کیوں نہیں تھا کیوں
کوئی ہوتا کوئی تو ہوتا
جو مجھ سے مری سفاک قاتل بے وفائی کی سزا میں
خون تھکواتا
مجھے ہر لمحے کی سولی پہ لٹکاتا
مگر فریاد کوئی بھی نہیں کوئی
دریغ افتاد کوئی بھی
مجھے مفرور ہونا چاہیے تھا
اور میں سفاک قاتل بے وفا خوں ریز تر میں
شہر میں خود وارداتی
شہر میں خود مست آزادانہ پھرتا ہوں
نگار خاک آسودہ
بہار خاک آسودہ
 
فہرست