مرجھا گئے کھل کے پھول یارو

شکیب جلالی


ہم آج ہیں پھر ملول یارو
مرجھا گئے کھل کے پھول یارو
گزرے ہیں خزاں نصیب ادھر سے
پیڑوں پہ جمی ہے دھول یارو
تا حد خیال‘ لالہ و گل
تا حدِ نظر‘ ببول یارو
جب تک کہ ہوس رہی گلوں کی
کانٹے بھی رہے قبول یارو
ہاں ‘ کوئی خطا نہیں تمھاری
ہاں ‘ ہم سے ہوئی ہے بھول یارو
مفعول مفاعِلن فَعُولن
ہزج مسدس اخرب مقبوض محذوف
فہرست