اندمال

شکیب جلالی


شام کی سیڑھیاں کتنی کرنوں کا مقتل بنیں
بادمسموم نے توڑ کر کتنے پتے سپردِ خزاں کر دیے
بہہ کے مشکیزہِ ابر سے کتنی بوندیں زمیں کی غذا بن گئیں
غیر ممکن تھا ان کا شمار
تھک گئیں گننے والے ہر اک ہاتھ کی انگلیاں
’’ان گنت‘ ‘ کہہ کے آگے بڑھا وقت کاکارواں
ان گنت تھے مرے زخمِ دل
ٹوٹی کرنوں ‘ بکھرتے ہوئے زرد پتوں ‘ برستی ہوئی بوندیوں کی طرح
اور مرہم بھی ناپید تھا
لیکن اس روز دیکھا جو اک طفلِ نوزائیدہ کا خندہِ زیرلب
زخمِ دل مندمل ہو گئے سب کے سب!
 
فہرست