مگر کمند ابھی دستِ سبکتگین میں ہے

عرفان صدیقی


لہو رکاب پہ ہے اور شکار زمین میں ہے
مگر کمند ابھی دستِ سبکتگین میں ہے
اسے بھی فکر ہے اسٹیج تک، پہنچنے کی
جو شخص ابھی صفِ آخر کے حاضرین میں ہے
جو دیکھ لے وہ برہنہ دکھائی دینے لگے
عجیب طرح کی تصویر میگزین میں ہے
فقط یہ بڑھتا ہوا دستِ دوستی ہی نہیں
ہمیں قبول ہے وہ بھی جو آستین میں ہے
مٹھائیوں میں ملی کرکراہٹیں جیسے
گماں کی طرح کوئی شے مرے یقین میں ہے
نمو پذیر ہوں میں اپنی فکر کی مانند
مرا وجود مرے ذہن کی زمین میں ہے
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
مجتث مثمن مخبون محذوف مسکن
فہرست