ہمارے جسم جدا ہیں کہ جان بیچ میں ہے

عرفان صدیقی


ابھی تو سب سے بڑا امتحان بیچ میں ہے
ہمارے جسم جدا ہیں کہ جان بیچ میں ہے
زمین سخت سہی، آسمان گرم سہی
وہ مطمئن ہے کہ اس کی اڑان بیچ میں ہے
یہ شہر پھونکنے والے کسی کے دوست نہیں
کسے خیال کہ تیرا مکان بیچ میں ہے
جدھر بھی جاؤ وہی فاصلوں کی دیواریں
کوئی زمیں ہو وہی آسمان بیچ میں ہے
رتوں کے جسم سے کیسے لپٹ سکوں عرفانؔ
مرا بدن ہے کہ اک سائبان بیچ میں ہے
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
مجتث مثمن مخبون محذوف مسکن
فہرست