دنیا چپ ہو جائے تو اپنے آپ سے بولوں

عرفان صدیقی


اس آشوب میں کیا انہونی سوچ رہا ہوں
دنیا چپ ہو جائے تو اپنے آپ سے بولوں
تیر کوئی مرے رستے کاٹ دے اس سے پہلے
چار دشائیں اپنے پروں میں آج سمولوں
حال تو پوچھے چارہ گر کا دستِ گریزاں
دستک ہو تو سینے کا دروازہ کھولوں
تھک گیا لمبی رات میں تنہا جلتے جلتے
سورج نکلے اور محراب سے رخصت ہو لوں
فہرست