اک غزل دشت کے ساربانوں کے نام

عرفان صدیقی


ایک خط آج اگلے زمانوں کے نام
اک غزل دشت کے ساربانوں کے نام
ایک خیمہ زمیں پر کھجوروں کے پاس
ایک نیزہ بلند آسمانوں کے نام
ایک حرفِ خبر‘ ساریہ کے لیے
چشمِ بیدار کالی چٹانوں کے نام
نہر کے نام جاگیرِ خوں، دوستو
دولتِ جاں کڑکتی کمانوں کے نام
تشنگی میرے سوکھے گلے کا نصیب
دودھ کی چھاگلیں میہمانوں کے نام
میری آنکھیں مرے آشیانوں کی سمت
میرے پر میری اونچی اڑانوں کے نام
کتنی موجوں پہ میرے سفینے رواں
کتنے ساحل مرے بادبانوں کے نام
ایک پودا مرے کوئے جاں کا نشاں
ایک محراب میرے مکانوں کے نام
سلطنت‘ کھلنے والی کمندوں کا اجر
اپنے بچوں کا سکھ بے زبانوں کے نام
آج جو آگ سے آزمائے گئے
کل کی ٹھنڈک ان آشفتہ جانوں کے نام
لکھ رہی ہیں سلگتی ہوئی انگلیاں
دھوپ کے شہر میں سائبانوں کے نام
فاعِلن فاعِلن فاعِلن فاعِلن
متدارک مثمن سالم
فہرست