سو کچھ ایسی ڈھب سے لڑائی ہے لڑے شیر جیسے کہ شیر سے

انشاء اللہ خان انشا


یہ جو مجھ سے اور جنوں سے یاں بڑی جنگ ہوتی ہے دیر سے
سو کچھ ایسی ڈھب سے لڑائی ہے لڑے شیر جیسے کہ شیر سے
بنی شکل لیلی نوجواں مرے داتا کیا کہوں الاماں
وہ تجلی ایک جو ہوئی عیاں کسی رات قیس کے ڈھیر سے
ابھی دو مہینے سے ہوں جدا نہ تو خواب میں بھی نظر پڑا
بھلا اور اندھیر زیادہ کیا کہیں ہو گا ایسے اندھیر سے
مجھے شامیانہ تلے سے کیا مرا دل تو کہتا ہے مجھ سے آ
سرِ راہ کوٹھے پہ بیٹھ جا یہیں تکیہ دے کے منڈیر سے
تری بادلے کی یہ اوڑھنی ارے برق کوندے نظر میں تب
کرے یہ گھٹا جو مقابلہ کسی پیشواز کے گھیر سے
نہیں انتظار کے حوصلے مجھے سوجھے سیکڑوں ارتلے
قسم ان نے کھائی تو ہے ولے مرا جی ڈرے ہے ادھیر سے
بھلا مجھ سے دیو کے سامنے کوئی ٹھونک سکتے ہیں خم بھلا
ارے یہ انگوٹھے سے آدمی تو بےچارے خود ہیں بٹیر سے
''وہی پی کہاں وہی پی کہاں'' یہی ایک رٹ سی جو ہے سو ہے
مہاراج چوٹ سی لگتی ہے مجھے اس پپیہے کی ٹیر سے
غزل انشاؔ اور بھی ایک لکھ اسی بحر اور ردیف کی
کہ زبر کی قافیے جس میں ہوں مجھے نفرت آ گئی زیر سے
فہرست