شیشے میں اس پری کو نہ جب تک اتاریے

انشاء اللہ خان انشا


زنہار ہمت اپنے سے ہرگز نہ ہاریے
شیشے میں اس پری کو نہ جب تک اتاریے
اوضاع ڈھونڈ ڈھانڈ کے یاروں سے سیکھیے
ہوتے نہیں جہان میں ہم سے نیاریے
اے اشک گرم کر مرے دل کا علاج کچھ
مشہور ہے کہ چوٹ کو پانی سے دھاریے
جو اہل‌ فقر و شاہ کمہارے کے ہیں مرید
پالے ہیں ان سبھوں نے کبوتر کمہاریے
گلنے کی دال یاں نہیں بس خشکہ کھائیے
اے شیخ صاحب آپ نہ شیخی بگھاریے
کل جن کو کھیرے ککڑی کیا کوس کاٹ کر
آج اس پری نے ان کو دیے نرم آریے
ہو آب میں کدر تو ٹھہر جائیے ٹک ایک
دل میں کدورت آوے تو کیوں کر نتھاریے
ہے کون سی یہ وضع بھلا سوچیے تو آپ
باتیں ادھر کو کیجے ادھر آنکھ ماریے
پوچھے حقیقت ایک نے جو امن راہ کی
تو بولے سر جھکا کے بچا وہ مداریے
خطرہ نہ آپ کیجے بس اب خیر شوق سے
سونا اچھالتے ہوئے گھر کو سدھاریے
ہے جو بلند حوصلہ ان کی یہ چال ہے
کیا پھر انہیں بگاڑیے جن کو سنواریے
پنڈت جی ہم میں ان میں بھلا کیسے ہونے کے
پوتھی کو اپنے کھولیے کچھ تو بچاریے
انشاؔ کوئی جواب بھی دینا نہیں ہمیں
بانگ جرس کی طرح کہاں تک پکاریے پکاریے
فہرست