کبھی دن بیتیں بیراگ بھرے کبھی رت آئے انوراگ بھری

عرفان صدیقی


کوئی چٹھی لکھو رنگ بھری کوئی مٹھی کھولو پھاگ بھری
کبھی دن بیتیں بیراگ بھرے کبھی رت آئے انوراگ بھری
جہاں خاک بچھونا رات ملے مجھے چاند کی صورت ساتھ ملے
وہی دکھیارن وہی بنجارن وہی روپ متی وہی بھاگ بھری
پل بھر کو اگر میں سوجاؤں تو سارا زہر کا ہو جاؤں
ترا کالا جنگل ناگ بھرا مری جلتی آنکھیں جاگ بھری
سنو اپنا اپنا کام کریں سرتال پہ کیوں الزام دھریں
میاں اپنی اپنی بانسریا کوئی راگ بھری کوئی آگ بھری
فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن
بحرِ زمزمہ/ متدارک مثمن مضاعف
فہرست