اس سے بچھڑے ہیں تو حاصل ہے فراغت کیسی

عرفان صدیقی


اب وہ بے تابی جاں کا ہے کی‘ وحشت کیسی
اس سے بچھڑے ہیں تو حاصل ہے فراغت کیسی
جان، ہم کارِ محبت کا صلہ چاہتے تھے
دلِ سادہ کوئی مزدور ہے اجرت کیسی
عمر کیا چیز ہے احساسِ زیاں کے آگے
ایک ہی شب میں بدل جاتی ہے صورت کیسی
شمعِ خیمہ کوئی زنجیر نہیں ہم سفراں
جس کو جانا ہے چلا جائے اجازت کیسی
اس زمیں پر مرے یکتا ترے تمثال بہت
آئینہ خانے میں آیا ہے تو حیرت کیسی
دل اگر دل ہے تو دریا سے بڑا ہونا ہے
سر اگر سر ہے تو نیزوں سے شکایت کیسی
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فہرست