بچائے رکھو پرانی روایتوں کو ابھی

عرفان صدیقی


کسی نے دیکھا ہے کل کی ضرورتوں کو ابھی
بچائے رکھو پرانی روایتوں کو ابھی
جو لوگ کرتے ہیں بے داغ چاہتوں کی تلاش
ترسنے والے ہیں جھوٹی محبتوں کو ابھی
پھر اک کمند نے ماں سے چھڑا لیا اس کو
سمجھ رہا تھا وہ صحرا کی وسعتوں کو ابھی
اکھر رہا ہے بھری دوپہر کا سناٹا
شریر پاؤں میسر نہیں چھتوں کو ابھی
سنا یہ ہے وہ بہت خوش سمجھ رہا ہے ہمیں
تو اس نے دور سے دیکھا ہے شہرتوں کو ابھی
زمانہ کل انہیں سچائیاں سمجھ لے گا
تم اک مذاق سمجھتے ہو تہمتوں کو ابھی
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
مجتث مثمن مخبون محذوف مسکن
فہرست