شانہ ہو کوئی دیدۂ گریاں کے لیے بھی

عرفان صدیقی


آ جا کبھی ہم گوشہ نشیناں کے لیے بھی
شانہ ہو کوئی دیدۂ گریاں کے لیے بھی
کیا سیر ہے جاناں یہ ترا پیرہنِ تنگ
تن چاہیے پیراہنِ جاناں کے لیے بھی
یہ جوئے تنک آب ہمیں راس نہ آ جائے
موقع ہے ابھی ابرِ گریزاں کے لیے بھی
سب صرف نہ کر موسمِ گل پر دلِ ناداں
کچھ گرمیِ جاں شام زمستاں کے لیے بھی
شہروں سے نکل کر ترے دیوانے کہاں جائیں
کم پڑنے لگے دشت غزالاں کے لیے بھی
اب یوں ہے کہ ہنگامۂ محفل میں ہیں خاموش
مشہور تھے جو ہوئے بیاباں کے لیے بھی
مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن
ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف
فہرست