شاعر
میں شاعر ہوں میری جمالیں نگہ میں
ذرا بھی نہیں فرق ذرے میں مہ میں
جہاں ایک تنکا سا ہے میری رہ میں
ہر اک چیز میرے لیے ہے فسانہ
ہر اک ڈوب سے سن رہا ہوں ترانہ
مرے فکر کے دام میں ہے زمانہ
میں سینے میں داغوں کے دیپک جلائے
میں اشکوں کے تاروں کا بربط اٹھائے
خیالوں میں نغموں کی دنیا بسائے
رہِ زیست پر بے خطر جا رہا ہوں
کہاں جا رہا ہوں، کدھر جا رہا ہوں
نہیں جانتا ہوں، مگر جا رہا ہوں
یہ دنیا یہ بے ربط سی ایک زنجیر
یہ دنیا یہ اک نامکمل سی تصویر
یہ دنیا نہیں میرے خوابوں کی تعبیر
میں جب سوچتا ہوں کہ انساں کا انجام
ہے مٹی کے اک گھر کی آغوش آرام
تو سینے میں اٹھتا ہے اک درد بے نام
میں جب دیکھتا ہوں کہ یہ بزمِ فانی
غمِ جاؤدانی کی ہے اک کہانی
تو چیخ اٹھتی ہے میری باغی جوانی
یہ محلوں، یہ تختوں، یہ تاجوں کی دنیا
گناہوں میں لتھڑے رواجوں کی دنیا
محبت کے دشمن سماجوں کی دنیا ؎
یہاں پر کلی دل کی کھلتی نہیں ہے
کوئی چق دریچوں کی ہلتی نہیں ہے
مرے عشق کو بھیک ملتی نہیں ہے
اگر میں خدا اس زمانے کا ہوتا
توعنواں کچھ اور اس فسانے کا ہوتا
عجب لطف دنیا میں آنے کا ہوتا
مگر ہائے ظالم زمانے کی رسمیں
ہیں کڑواہٹیں جن کی امرت کے رس میں
نہیں میرے بس میں، نہیں میرے بس میں
مری عمر بیتی چلی جا رہی ہے
دو گھڑیوں کی چھاؤں ڈھلی جا رہی ہے
ذرا سی یہ بتی جلی جا رہی ہے
جونہی چاہتی ہے مری روح مدہوش
کہ لائے ذرا لب پہ فریادِ پرجوش
اجل آ کے کہتی ہے خاموش! خاموش!
؎ ساحر لدھیانوی کے ایک مشہور گیت کے بعض مصرعے اسی بند سے ماخوذ ہیں۔