صبحِ جدائی

مجید امجد


اب دھندلی پڑتی جاتی ہے تاریکیِ شب، میں جاتا ہوں
وہ صبح کا تارا ابھرا، وہ پو پھوٹی، اب میں جاتا ہوں
جاتا ہوں، اجازت! جانے دو، وہ دیکھو اجالے چھانے کو ہیں
سورج کی سنہری کرنوں کے خاموش بلاوے آنے کو ہیں
وہ پھولوں کے گجرے جو تم کل شام پرو کر لائی تھیں
وہ کلیاں جن سے تم نے یہ رنگیں سیجیں مہکائی تھیں
دیکھو ان باسی کلیوں کی پتی پتی مرجھائی ہے
وہ رات سہانی بیت چکی، آ پہنچی صبحِ جدائی ہے
اب مجھ کو یہاں سے جانا ہے ، پرشوق نگاہو! مت روکو
او میرے گلے میں لٹکی ہوئی لچکیلی باہو! مت روکو
ان الجھی الجھی زلفوں میں دل اپنا بسارے جاتا ہوں
ان میٹھی میٹھی نظروں کی یادوں کے سہارے جاتا ہوں
جاتا ہوں، اجازت! وہ دیکھو، غرفے سے شعاعیں جھلکی ہیں
پگھلے ہوئے سونے کی لہریں مینائے شفق سے چھلکی ہیں
کھیتوں میں کسی چرواہے نے بنسی کی تان اڑائی ہے
ایک ایک رسیلی سر جس کی پیغام سفر کا لائی ہے
مجبور ہوں میں، جانا جو ہوا، دل مانے نہ مانے جاتا ہوں
دنیا کی اندھیری گھاٹی میں اب ٹھوکریں کھانے جاتا ہوں
 
فہرست