خدا

مجید امجد


خبر ہے تجھ کو کچھ، رلدو! مرے ننھے ! مرے بالک!
ترا بھگوان پرمیشر ہے اس سنسار کا پالک!
کہاں رہتا ہے پرمیشر؟ ادھر آکاش کے پیچھے
کہیں دور، اس طرف تاروں کی بکھری تاش کے پیچھے
نہیں دیکھا؟ سویرے جوں ہی مندر میں گجر باجا
پہن کر نور کی پوشاک وہ من موہنا راجا
لیے سونے کا چھابا جب ادھر پورب سے آتا ہے
تو ان تاروں کی پگڈنڈی پہ جھاڑو دے کے جاتا ہے
نہیں سمجھے کہ اتنا دور کیوں اس کا بسیرا ہے ؟
وہ اونچی ذات والا ہے اور اونچا اس کا ڈیرا ہے
یہ دنیا والے ، یہ امرت کے رس کی چھاگلوں والے
یہ میٹھے بھوجنوں والے ، یہ اجلے آنچلوں والے
یہ اس کو اپنی لاشیں اپنے مردے سونپ دیتے ہیں
عفونت سے بھرے دل اور گردے سونپ دیتے ہیں
جنہیں دوزخ کے زہروں میں بھگو کر بھونتا ہے وہ
جنہیں شعلوں کی سیخوں میں پرو کر بھونتا ہے وہ
یہ اس بھگوان کے دامن کو چھو لینے سے ڈرتے ہیں
یہ اس کو اپنے محلوں میں جگہ دینے سے ڈرتے ہیں
کسی نے بھول کر اس کا بھجن گایا، یہ جل اٹھے
کہیں پڑ بھی گیا اس کا حسیں سایا، یہ جل اٹھے
غلط کہتا ہے تو نادان، تو نے اس کو دیکھا ہے
مرے بھولے ! ہماری اور اس کی ایک لیکھا ہے
 
فہرست