گلی کا چراغ

مجید امجد


تری جلن ہے مرے سوزِ دل کے کتنی قریب
خدا رکھے تجھے روشن! چراغِ کوئے حبیب
تو جانتا ہے مری زندگی کا افسانہ
تو جانتا ہے میں کس شمع کا ہوں پروانہ
لرز لرز گئی اکثر تری یہ نازک لو۔۔۔
ٹھٹک ٹھٹک کے چلا جب کوئی حزیں رہرو
وہ تیرے سانولے سایوں میں اس کا طوفِ نیاز
وہ دور ۔۔۔ موڑ پہ قدموں کی آخری آواز
صدا خفیف سی دستک سے ملتی جلتی ہوئی
اور اس کے بعد کوئی چٹخنی سی کھلتی ہوئی
ہوا کے نرم جھکولوں میں سرسراہٹ سی
گلی کے کونے پہ باتیں سی، کھلکھلاہٹ سی
کہ اتنے میں نظر آیا طویل سایا کوئی
پھر اک صدا کہ ’’وہ دیکھو ادھر سے آیا کوئی‘‘
کواڑ بند، گلی بے صدا، فضا خاموش
اور ایک درد کا مارا مسافرِ مدہوش
پلٹ چلا انھی رستوں پہ ڈگمگاتا ہوا
دکھے دکھے ہوئے لہجوں میں گنگناتا ہوا
تو جانتا ہے کسی کی گلی کے پاک چراغ
چراغِ طور سے بھی بڑھ کے تابناک چراغ
کہ تو نہ ہو تو وہ آوارۂ دیارِ حبیب
پہنچ سکے نہ کبھی ’’ان‘‘ کے آستاں کے قریب
جو تو نہ ہو تو یہ راز اک فسانہ بن جائے
نگاہ اہلِ جہاں کا نشانہ بن جائے
 
فہرست