دنیا

مجید امجد


جہاں کی حقیقت کی کس کو خبر ہے
فریبِ نظر تھی، فریبِ نظر ہے
یہی پھول کی زیست کا ماحصل ہے
کہ اس کا تبسم ہی اس کی اجل ہے
نہ سمجھو کہ چشمِ حسیں سرمگیں ہے
نہیں، قبر کی تیرگی کی امیں ہے
یہ کیا کہہ رہے ہو کہ ندی رواں ہے
سمندر سے پوچھو، کہاں تھی، کہاں ہے
نہ سمجھو کہ ہے کیف پرور یہ نغمہ
شکن ہے ہوا کی جبیں پر یہ نغمہ
کہاں دھڑکنیں ہیں دلِ زار کی یہ
صدائیں ہیں اک ٹوٹتے تار کی یہ
یہ ہستی کا دریا بہا جا رہا ہے
ہم آہنگ سیلِ فنا جا رہا ہے
پھنسے کچھ انوکھے قرینوں میں ہیں ہم
حبابوں کے نازک سفینوں میں ہیں ہم
یہ کیا ہے ، یہ کیوں ہے ، خبر کیا، خبر کیا
مرے تیرہ ادراک کی ہو سحر کیا!
مری بزمِ دل میں نہیں روشنی کیوں؟
ہے بے صید میری نگہ کی انی کیوں؟
یہ دنیا ہے میری کہ مرقد ہے میرا؟
یہاں بھی اندھیرا، وہاں بھی اندھیرا
 
فہرست