خودکشی

مجید امجد


ہاں میں نے بھی سنا ہے تمہارے پڑوس میں
کل رات ایک حادثۂ قتل ہو گیا
ہاں میں نے بھی سنا ہے کہ اک جام زہر کا
دو جیونوں کی ننھی سی نوکا ڈبو گیا
کوئی دکھی جوان وطن اپنا چھوڑ کر
اپنی سکھی کے ساتھ اک اور دیس کو گیا
دنیا کے خارزار میں سو ٹھوکروں کے بعد
یوں آخر ان کا قصۂ غم ختم ہو گیا
یوں طے کیا انہوں نے محبت کا مرحلہ
ایک ایک گھونٹ اور جو ہونا تھا ہو گیا
دونوں کی آنکھ میں تھا اک اک اشک منجمد
جو خشک خشک پلکوں کی نوکیں بھگو گیا
کچھ کہنے پائی تھی کہ وہ خاموش ہو گئی
کوئی جواب دینے کو تھا وہ کہ سو گیا
پیمانۂ اجل کا وہ تلخابہ اس طرح
روحوں کے زخموں، سینوں کے داغوں کو دھو گیا
اکثر یونہی ہوا ہے کہ الفت کا امتحاں
دشواریوں میں موت کی آسان ہو گیا
آؤ نا! ہم بھی توڑ دیں اس دامِ زیست کو
سنگِ اجل پہ پھوڑ دیں اس جامِ زیست کو
 
فہرست