سیرِ سرما

مجید امجد


پوہ کی سردیوں کی رعنائی
آخرِ شب کی سرد تنہائی
ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا، خدا کی پناہ
دھند میں گم فضا، خدا کی پناہ
ذرے ذرے پہ، پات پات پہ برف
ہر کہیں سطحِ کائنات پہ برف
اس قدر ہے خنک ہوائے صبوح
منجمد ہے رگوں میں موجۂ روح
کون کہتا ہے دل ہے سینے میں
برف کی ایک سل ہے سینے میں
پھر بھی آنکھوں کے سرد جاموں میں
پھر بھی پلکوں کے ٹھٹھرے داموں میں
گرم گرم اشک اضطراب میں ہیں
میری مانند پیچ و تاب میں ہیں
ہوں رواں آتشیں خیالوں میں گم
’’آہ تم!
کتنے سردمہر
ہو۔۔۔۔تم!‘‘
 
فہرست