دستک

مجید امجد


کس نے دروازہ کھٹکھٹایا ہے ؟
جا کے دیکھوں تو، کون آیا ہے ؟
کون آیا ہے میرے دوارے پر
رات آئی کہاں بےچارے پر!
میرے چھپر سے ٹیک کر کاندھا
کون استادہ ہے تھکا ماندہ؟
میری کٹیا میں آؤ، سستا لو
یہ مرا ساغرِ شکستہ لو!
میری چھاگل سے گھونٹ پانی پیو
اک نئے عزم کی جوانی پیو
ٹمٹماتے دیے کی جھلمل میں
جوت سلگا لو اک نئی دل میں
یہ مرے آنسوؤں کی شبنم لو
پاؤں کے آبلوں کی مرہم لو
یہ مجھے افتخار دو، بیٹھو
سر سے گٹھڑی اتار دو، بیٹھو
میرے زانو پر اپنا سر رکھ کر
طاق پر کاہشِ سفر رکھ کر
نیند کی انجمن میں کھو جاؤ
منزلوں کے سپن میں کھو جاؤ
خواب، وادی و کوہسار کے خواب
دشت و دریا و آبشار کے خواب
خواب اندھیری طویل راہوں کے
کنجِ صحرا کی خیمہ گاہوں کے
جہاں اک شمع ابھی فروزاں ہے
جہاں اک دل تپاں ہے ، سوزاں ہے
تم لپٹ جاؤ ان خیالوں سے
اور میں کھیلوں تمہارے بالوں سے
صبح جب نور کا فسوں برسے
سونی پگڈنڈیوں پہ خوں برسے
باگ تھامے حسیں ارادوں کی
تم خبر لو پھر اپنے جادوں کی
جب تلک زیست کا سفینہ بہے
اجنبی اجنبی کو یاد رہے
مجھ کو یہ اپنی یاد دے جاؤ
آؤ بھی، کیوں جھجھکتے ہو، آؤ
تم کہاں ہو؟ کہاں؟ جواب تو دو
او مرے میہماں! جواب تو دو
تم نے دروازہ کھٹکھٹایا تھا!
کس کی دستک تھی؟ کون آیا تھا؟
نیم شب، قافلے ستاروں کے
تیز ہرکارے ابر پاروں کے
کس نے نیندوں کو میری ٹوکا تھا؟
کوئی جھونکا تھا؟ کوئی دھوکا تھا؟
 
فہرست