پھر کیا ہو؟

مجید امجد


آسماں بھی نہ ہو زمیں بھی نہ ہو
دشت و دریا نہ کوہ و صحرا ہو
دن ہو بے نور، رات بے ظلمت
ماہ کافور، مہرعنقا ہو
بے نشاں بے کراں فضاؤں میں
کوئی تارا نہ جھلملاتا ہو
نہ ازل ہو نہ ہو ابد کوئی
کوئی جلوہ نہ کوئی پردا ہو
نہ کہیں بھی نشانِ ہستی ہو
نہ کہیں بھی گمانِ دنیا ہو
موت ناپید، زندگی معدوم
نہ حقیقت ہو اور نہ دھوکا ہو
کہیں نقشِ وجود تک نہ رہے
کہیں اک سانس تک نہ آتا ہو
یہ جہاں بھی نہ ہو، خدا بھی نہ ہو
کہیں اک ذرہ تک نہ اڑتا ہو
سوچتا ہوں تو کانپ جاتا ہوں
یہاں کچھ بھی نہ ہو تو پھر کیا ہو؟
 
فہرست