گاڑی میں

مجید امجد


یہ بے کراں فضائیں جہاں اپنے چہرے سے
پردہ الٹ دیا ہے نمودِ حیات نے
شاداب مرغزار کہ دیکھی ہے جس جگہ
اپنے نمو کی آخری حد، ڈال پات نے
گنجان جھنڈ جن کے تلے کہنہ سال دھوپ
آئی کبھی نہ سوت شعاؤں کا کاتنے
پیڑوں کے شاخچوں پہ چہکتے ہوئے طیور
تاکا جنہیں کبھی نہ شکاری کی گھات نے
تم کتنے خوش نصیب ہو آزاد جنگلو!
اب تک تمہیں چھوا نہیں انساں کے ہات نے
اب تک تمہاری صبح کو دھندلا نہیں کیا
تہذیب کے نظام کی تاریک رات نے
پھینکی نہیں تمہارے مقامِ بلند پر
کوئی کمند سلسلۂ حادثات نے
اچھے ہو تم کہ تم کو پریشاں نہیں کیا
انسانیت کے دل کی کسی واردات نے
اے وائے اس حسین بیاباں کو کس طرح
نیندوں سے بھر دیا ہے نسیمِ حیات نے
ان وسعتوں میں کلبہ و ایواں کوئی نہیں
ان کنکروں میں بندہ و سلطاں کوئی نہیں
 
فہرست