دور کے پیڑ

مجید امجد


آج آخر میں نے دل میں ٹھان لی
آج ان کے پاس جاؤں گا ضرور!
پار ان پھیلی چراگاہوں کے پار
ہانپتی پگڈنڈیوں سے دور۔۔۔ دور
اس طرف سے ایک عمر آیا کیے
میرے نام ان کے بلاوے روز و شب
دل کو سندیسے ، نگہ کو دعوتیں
شوق میں ڈوبے ہوئے پیغام سب
بارہا اٹھی مری حیراں نظر
صجدم ان کے ٹھکانوں کی طرف
بارہا دل نے یہ چپکے سے کہا
وہ کھڑے ہیں تیرے ارماں، صف بہ صف!
بارہا جب ان کے محلوں کے کلس
جگمگا اٹھے فروغِ شام سے
میں نے دیکھی دور سے اٹھتی ہوئی
تودۂ خاکسترِ ایام سے
زندگی کے بے نشاں خوابوں کی دھند
منزلیں جن تک کوئی رستہ نہیں
آرزوؤں کی سنہری بستیاں
بستیاں، جن میں کوئی بستا نہیں
کر رہے ہیں روز و شب اک عمر سے
میری شرمیلی تمناؤں سے چھیڑ
دور، جھکتے آسماں کی اوٹ میں
ٹیکری پر لہلہانے والے پیڑ
آج آخر میں نے دل میں ٹھان لی
آج جا پہنچا میں، جا پہنچا وہاں
خستہِ دل پیڑوں کی اک سونی قطار
خشک شاخیں، کھڑکھڑاتی ٹہنیاں
بے کفن لاشوں کی طرح آویختہ
اپنی جھولی میں لیے پہنائے دشت
برگ و بر کی لاکھ پشتوں کے مزار
ان میں جھونکوں کی صدائے بازگشت
جس طرح مردے کریں سرگوشیاں
دیکھتا ہوں اور یقیں آتا نہیں
آج ان ویرانیوں کا میرے نام
کوئی پیغامِ حسیں آتا نہیں
کوئی محمل، کوئی گردِ کارواں
کوئی آوازِ جرس، کچھ بھی نہیں
آرزوؤں کے سمن زاروں میں آج
رنگ، بو، چھب، روپ، رس، کچھ بھی نہیں
ریتلے ٹیلوں کی ڈھلوانوں کے پار
وہ رہا میرا نشیمن، دور ادھر
کھیلتا ہے جس کے بام و در کے ساتھ
ٹیکری سے دور ادھر، اک نور ادھر
نور۔۔۔ اک رنگیں دھوئیں کی طرح نور
روشنی۔۔۔ اک گل بداماں روشنی
میں تجھے ڈھونڈوں کہاں، ڈھونڈوں کہاں
میری نظروں سے گریزاں روشنی!
 
فہرست