چولھا

مجید امجد


ڈوریاں جب سے تھرتھرائی ہیں
زیست کی نیم باز پلکوں کی
آگ جلتی ہے تیرے سینے میں
روشنی جھونپڑیوں محلکوں میں
آگ جلتی ہے ، زندگی کی آگ!
جس کی لپٹوں پہ ہاتھ سینکتے ہیں
آنسوؤں کی نمی سے ٹھٹھرے راگ!
جس کے زخمی دھوئیں میں چھپ چھپ کر
روح سے روح بات کرتی ہے
دل کے داغوں کی سطحِ سوزاں پر
قہقہوں کی برات اترتی ہے
تو نے دیکھیں وہ ان گنت شامیں
جب ترے آہ بر لب انگارے
ہو گئے بجھ کے سرد راکھ کا ڈھیر
چھڑ گئے دو دلوں کے اکتارے
دو نگاہیں اٹھیں، ملیں، چمکیں
آنے والی سحر کی دھندلی آس
دو تڑپتے دلوں میں تیر گئی
اوندھی ہنڈیا، خنک توے کے پاس
 
فہرست