واماندہ

مجید امجد


قافلے کتنے پیش و پس گزرے !
میری واماندگی پہ ہنس گزرے !
کتنے تارے چمک چمک ڈوبے
کتنے بادل برس برس گزرے !
سلسلے ہانپتے زمانوں کے
تیز رفتار، دوررس گزرے
کتنی راتیں تڑپ تڑپ کاٹیں!
کس قدردن ترس ترس گزرے
وہ نہ پھر لوٹے ، مدتیں بیتیں
انہیں دیکھے ہوئے برس گزرے
اب تو یاد ان کی دل میں آتی ہے
جیسے بجلی بہ نبضِ خس گزرے
ابدی خامشی کی آندھی میں
جیسے کوئی پرِ مگس گزرے
دور سے راہرو کے کانوں میں
جس طرح نالۂ جرس گزرے
 
فہرست