ایک نظم

مجید امجد


دوست، یہ سب سچ ہے ، لیکن زندگی
کاٹنی تو ہے ، بسر کرنی تو ہے !
گھات میں ہو منتظر چلے پہ تیر
ہرنیوں نے چوکڑی بھرنی تو ہے
کاٹ دیں کتنی رتوں کی گردنیں
بھاگتے لمحوں کے چلتے آروں نے
ہاں، یہ سب سچ ہے ، پر اس کا کیا علاج
چار دن جینا ہے ہم بے چاروں نے
ہم نے بھی اپنی نحیف آواز کو
شاملِ شورِ جہاں کرنا تو ہے !
زندگی اک گہری، کڑوی، لمبی سانس
دوست، پہلے جی بھی لیں، مرنا تو ہے
موت کتنی تیرہ و تاریک ہے !
ہو گی، لیکن مجھ کو اس کا غم نہیں
قبر کے اندھے گڑھے کے اس طرف
اس طرف، باہر، اندھیرا کم نہیں
ہاں اسی گم سم اندھیرے میں ابھی
بیٹھ کر وہ راکھ چننی ہے ہمیں
راکھ، ان دنیاؤں کی، جو جل بجھیں
راکھ، جس میں لاکھ خونیں شبنمیں
زیست کی پلکوں سے ٹپ ٹپ پھوٹتی
جانے کب سے جذب ہوتی آئی ہیں
کتنی روحیں ان زمانوں کا خمیر
اپنے اشکوں میں سموتی آئی ہیں
جانتا ہوں، میرے دل کی آگ کو
چند ماہ و سال کے ایندھن کا ڈھیر
دیر تک تابندہ رکھ سکتا نہیں
زیست امکانات کا اک ہیرپھیر
کیا عجب ہے ، میرے سینے کا شرر
اک تمنائے بغل گیری کے سات
وقت کے مرگھٹ پہ بانہیں کھول دے
اک نرالی صبح بن جائے یہ رات
 
فہرست