ایک پرنشاط جلوس کے ساتھ

مجید امجد


کون ۔۔۔ اس اونچی چھت کی بوسیدہ منڈیروں کے قریب؟
نیچے خلعت پوش بازاروں میں، سیلابِ سرور
ناچتے پاؤں، تھرکتی بانہیں، محوِ نغمہ ہونٹ
میں بھی آ نکلا ہوں اتنی دور سے ، دردوں سے چور
صرف اس امید پر شاید کہ گزرے اب کے بھی
تیرے گھر کے سامنے والی سڑک کے پاس سے
اس حسیں تہوارکی رنگینیوں کا کارواں
شاید اب کے پھر بھی، شوقِ دید کے احساس سے
تو بھی آ نکلے سرِ بام ۔۔۔ آہ یہ سودائے خام
جا رہا ہوں زرفشاں پوشاک میں لپٹا ہوا
زرفشاں پوشاک کے نیچے دلِ حسرت نصیب
اک شرر پیراہنِ خاشاک میں لپٹا ہوا
آج کیوں ان ٹھوکروں کی پے بہ پے افتاد میں
اک عجب آسودگی محسوس ہوتی ہے مجھے
کیوں اس انبوہِ رواں کی شورشوں کے درمیان
اک حسیں موجودگی محسوس ہوتی ہے مجھے
پاؤں تو اٹھتے ہیں لیکن آنکھ اٹھ سکتی نہیں
جا رہا ہوں میں نہ جانے کس سے شرماتا ہوا
میں لرز اٹھتا ہوں کس کی ٹکٹکی کے وہم سے ؟
میں جھجھک جاتا ہوں کس کے سامنے آتا ہوا؟
کس کا چہرہ ہے کہیں ان گھونگھٹوں کے درمیان۔۔۔
چوڑیوں والی کلائی؟ جھومروں والی جبیں؟
ممٹیوں پر سے پھسلتا ہی نہیں کنکر کوئی
کون ہے موجود؟ جو موجود بھی شاید نہیں
 
فہرست