بارش کے بعد
حسن تہذیب کا آئینۂ خوبی ۔۔۔ بازار
چہرۂ ِ شہر پہ دو شوخ لٹوں کا جادہ
جس کے دو رویہ، پر آشوب کمیں گاہوں میں
جسم اور دل کے لذائذ کی صفِ استادہ
راہگیروں کی نگاہوں کو صدا دیتی ہے
مینہ تھما ہے ، اور ابھی ہلکی پھہار آتی ہے
کچکچاتے ہوئے کیچڑ کو کچوکے دیتی۔۔۔
کھلکھلاتی ہوئی، قدموں کی قطار آتی ہے
کھیلتے بولتے انبوہ اور آموں کی دکاں!
نہ پپیہے کی، نہ کوئل کی پکار آتی ہے
آم! ہاں جن کی غریبُ الوطنی کی سوغات
دور سے ریل کے ڈبوں پہ سوار آتی ہے !
آم ہی آم ہیں! اور ان کے سواِ کچھ بھی نہیں
امریوں کے نہ وہ جھولے نہ وہ پینگوں کی کمان!
جھیل کے تٹ پہ گھنی چھاؤں میں جو گونجا کی
ناچتی سکھیوں کی بجتی ہوئی پائل کی وہ تان
سینۂ وقت سے پھوٹی ہوئی موجِ الہام
موت کی نیند ہے گیتوں کی کتابوں میں پڑی
اب یہی رہ گئیں انسان کے ماتم کے لیے
ہڈیاں بچھڑے ہوئے آموں کی، چھابوں میں پڑی
لوگ، بن گٹھلیوں کے ، پچکے ہوئے ، چھلکوں سے
رائیگاں چوستے ہیں آموں کی فصلوں کی شراب
آہ! ساون کا وہ امرت، جو امر رس نہ رہا
پاس ہی تھالوں پہ بجتا ہوا بوندوں کا رباب
نانبائی کی دکاں جس کے چراغوں کی چمک
جلتے پاتال کے دوزخ سے اڑا لائی ہے
سینکڑوں بھوک کے مارے ہوئے پروانوں کو
سرپھرے کیڑے ہیں، بازار کی پہنائی ہے
یہ کتلیوں میں شپاشپ، یہ تووں پر تڑتڑ
اور وہ اک تھال میں کچھ پرجلی چاپیں باقی
یہ’’اٹکتے ہوئے ‘‘ لقمے ، یہ ’’پھڑکتے ہوئے ‘‘ گھونٹ
’’مے کی ہر بوند متاعِ دو جہاں ہے ساقی‘‘