تیرے دیس میں

مجید امجد


مدت کے بعد آج ادھر سے گزر ہوا
تیری گلی کے موڑ پہ رک سا گیا ہوں میں
اک لمحے کے لیے مجھے بیتے ہوئے سمے
لوٹا دیے ہیں سلسلۂ صبح و شام نے
ایک ایک کر کے گزرے ہوئے لاکھ واقعات
پھرنے لگے ہیں میری نگاہوں کے سامنے
تو ہی نہیں ہے بلکہ بڑی مدتوں کے بعد
خود آج اپنے آپ کو یاد آ رہا ہوں میں
اب جانے اس کو کتنے زمانے گزر گئے
اک دن تری نگاہ سے میری نگاہ میں
ٹپکا تو تھا وہ حوصلۂ روزگار سوز
تب میں تھا اور دل کی جوالا دھواں دھواں
زنجیریں تپ گئیں مری لیکن نہ کٹ سکیں
میں جل بجھا اس آگ کے شعلوں کے درمیان
تیرے ارادہ بخش بلاوے کے باوجود
سہما رہا میں قیدگہ رسم و راہ میں
میں مانتا ہوں میں نے بغاوت ضرور کی
جبرِ زمانہ سے ؟ نہیں، تیری نگاہ سے
لائی ہے ایک ان ہوئی ہونی کی یاد آج
پھر تیری رہ پہ دور بہت تیری راہ سے
 
فہرست