راتوں کو۔۔۔

مجید امجد


آنکھوں میں کوئی بس جاتا ہے
میٹھی سی ہنسی ہنس جاتا ہے
احساس کی لہریں ان تاریک جزیروں سے ٹکراتی ہیں
جہاں نغمے پنکھ سنوارتے ہیں
سنگین فصیلوں کے گنبد سے پہرے دار پکارتے ہیں:
’’کیا کرتا ہے ؟‘‘
دل ڈرتا ہے
دل ڈرتا ہے ان کالی اکیلی راتوں سے دل ڈرتا ہے
ان سونی تنہا راتوں میں
دل ڈوب کے گزری باتوں میں
جب سوچتا ہے ، کیا دیکھتا ہے ، ہرسمت دھوئیں کا بادل ہے
وادی و بیاباں جل تھل ہے
زخار سمندر سوکھے ہیں، پرہول چٹانیں پگھلی ہیں
دھرتی نے ٹوٹتے تاروں کی جلتی ہوئی لاشیں نگلی ہیں
پہنائے زماں کے سینے پر اک موج انگڑائی لیتی ہے !
اس آب و گل کی دلدل میں اک چاپ سنائی دیتی ہے
اک تھرکن سی، اک دھڑکن سی، آفاق کی ڈھلوانوں میں کہیں
تانیں جو ہمک کر ملتی ہیں، چل پڑتی ہیں، رکتی ہی نہیں
ان راگنیوں کے بھنور بھنور میں صدہا صدیاں گھوم گئیں
اس قرن آلود مسافت میں لاکھ آبلے پھوٹے ، دیپ بجھے
اور آج کسے معلوم، ضمیرِ ہستی کا آہنگِ تپاں
کس دور دیس کے کہروں میں لرزاں لرزاں رقصاں رقصاں
اس سانس کی رو تک پہنچا ہے
اس میرے میز پہ جلتی ہوئی قندیل کی لو تک پہنچا ہے
کون آیا ہے ؟ کون آتا ہے ؟ کون آئے گا؟
انجانے من کی مورکھتا کو کیا کیا دھیان گزرتا ہے
دل ڈرتا ہے
دل ڈرتا ہے ان کالی اکیلی راتوں سے دل ڈرتا ہے
 
فہرست