جہانِ قیصر و جم میں

مجید امجد


’’ہے کس طرف، مرے بیٹے ! تمہاری عمرِ دراز
ہمارے دیس کے فرماں روا کی درگہ ناز‘‘
شعاعِ اولِ خورشید کی نگاہِ خموش
فضائے صبح کی دھندلاہٹوں میں ڈوب گئی
مجھے وہ لمحۂ ظلمت فشاں نہیں بھولا
جب ایک پل کے لیے دو جہاں کی تاریکی
مرے ضمیر کی گہرائیوں سے اچھلی اور
ابھر کے راستوں اور منزلوں پہ پھیل گئی
’’معاف رکھنا، بڑی بی! مجھے نہیں معلوم!‘‘
’’کوئی بھی میرا جہاں میں نہیں‘‘
’’ترے مقسوم!‘‘
جہانِ قیصر و جم کی شگفتہ راہوں پر
ضعیف قدموں کے جلتے نشاں بکھرتے گئے
غبارِ راہ کی پیشانیوں سے مٹتے ہوئے
مرے شعور کے الواح پر ابھرتے گئے
ہزار لٹتے ہوئے خرمنوں کے نظارے
نظر کے سامنے آتے گئے ، گزرتے گئے
’’یہاں کہیں بھی مداوائے اضطراب نہیں
کہاں ہو، لوٹ بھی آؤ‘‘
کوئی جواب نہیں!
کسی کے ہانپتے ارماں جنہیں جگہ نہ ملی
نظامِ زر کے چمکتے ہوئے قرینوں میں
اب ایک دوزخِ احساس بن کے کھولتے ہیں
مرے تڑپتے ارادوں کے آبگینوں میں
پڑا رہے گا یونہی کب تک اے خسِ پامال
بلند محلوں کے رفعت نورد زینوں میں
عطا ہوا ہے تجھے بھی یہ حق مشیت سے
خراج مانگ بہاروں کی بادشاہت سے
 
فہرست