رودادِ زمانہ
مجھ کو تسلیم ہے یہ بات فسانہ ہی سہی
پھر بھی سوچو تو حقیقت ہے کہ اس دنیا میں
جب سے ویرانۂ ماضی کے اندھیروں میں کہیں
رینگتے اژدروں کی زہر بھری پھنکاریں
نفس سینہ انساں کی خبر لائی ہیں
ہم نے دیکھا ہے یہی کچھ کہ ہر اک دورِ زماں
برف زاروں سے پھسلتی ہوئی صدیوں کا خروش
کھولتے لاوے میں جلتے ہوئے قرنوں کا دھواں
نردبانِ سحر و شام کے ساتھ اٹھتی ہوئی
اس صنم خانۂ ایام کی اک اک تعمیر
کچھ اگر ہے بھی، یہ سب سلسلۂ زیست تو ہے
انھی ناگوں کے خم و پیچِ بدن کی تصویر
کیا وہ شوریدگی آب و دخاں کی منزل
کیا یہ حیرت کدۂ لالہ و گل کی سرحد
جا بجا وقت کے گنبد میں نظر آتے ہیں
یہی عفریت، خدایانِ جہاں کے اب و جد
زیبِ اورنگ کہیں، زینتِ محراب کہیں
ان کی شعلہ سی زباں ہے کہ ازل سے اب تک
چاٹتی آئی ہے ان کانپتی روحوں کا لہو
جن کے ہونٹوں کی ڈلک، جن کی نگاہوں کی چمک
زہر میں ڈوب کے بھی بجھ نہ سکی، بجھ نہ سکی
ہاں اسی طرح سرِ سطحِ سوادِ ایام!
بارہا جنبشِ یک موج کے ہلکورے میں
بہہ گئے غولِ بیاباں کے گرانڈیل اجسام
بارہا تند ہوائیں چلیں، طوفاں آئے
لیکن اک پھول سے چمٹی ہوئی تتلی نہ گری
کوئی سمجھے تو حقیقت ہے ، نہ سمجھے تو یہ بات
اک فسانہ سہی، رودادِ زمانہ نہ سہی