ہم سفر

مجید امجد


ابھی ابھی سبز کھیتیوں پر
جو دور تک مست آرزوؤں کی موج بن کر لہک رہی ہیں
سیاہ بادل جھکے ہوئے تھے
اور اب، حسیں دھوپ میں نہاتی فضائیں زلفیں چھٹک رہی ہیں
طویل پٹڑی کے ساتھ رقصاں
مہیب پیڑوں کے گونجتے جھنڈ، دراز سایوں سے بچتی راہیں
کہ جن کی موہوم سرحدوں پر
نکل کے گاڑی کی کھڑکیوں سے ، تری نگاہیں مری نگاہیں
الگ الگ آ کے تھم گئی ہیں
اور ایک انداز بے کسی میں، مآلِ امروز سوچتی ہیں
پلٹ پلٹ کر امڈتے بادل
سمٹ سمٹ کر سرکتے آنچل
عجیب اک لذتِ طرب ہے !
 
فہرست