اور آج سوچتا ہوں۔۔۔

مجید امجد


اور آج سوچتا ہوں کہ کیوں میرا سوزِ دل
تیرے محل کا جشنِ چراغاں نہ بن سکا
تیری وفا سے پردۂ محمل نہ اٹھ سکا
میرا جنوں بھی چاکِ گریباں نہ بن سکا
آنکھوں میں ممکنات کی طغیانیاں لیے
تو ساحلِ حیات پہ حیراں کھڑی رہی
دور اک تڑپتی ناؤ، افق کے نشیب میں
موجوں کی سیڑھیوں سے اترتی چلی گئی
دورِ زماں کی ایک چمکتی سی موڑ پر
تیرے قدم کی چاپ کا میں منتظر رہا
دور اک حجابِ نور سے چھنتا ہوا سرود
پل بھر ابھر کے کھولتے لمحوں میں گھل گیا
آج اس تمام کاہش جاں سوز کا مآل
دکھتی سی اک خراش جبینِ خیال پر
بھولی سی ایک یاد، جو اب بھی کبھی کبھی
پر تولتی ہے کنگرۂ ماہ و سال پر
دنیا تو اک طلوعِ مسلسل کا نام ہے
لیکن ہماری زیست کی مچلی ہوئی کرن
جب بجھ گئی تو تیرگیِ لازوال ہے
تو شمعِ انجمن ہے نہ میں شمعِ انجمن
یہ غم نہیں کہ قصۂ لیل و نہار میں
ہم اک حسین باب نہ ایزاد کر سکے
افسوس یہ ہے جی تو رہا ہوں ترے بغیر
لیکن یہ سوچ، تیرے لیے کون مر سکے
 
فہرست