دورِ نو؟

مجید امجد


زندگانی کا یہ فرسودہ نظام
آنسوؤں کی صبح اور آہوں کی شام
اس نظامِ کہنہ کو بدلے کوئی
سامنے وہ گوشۂ بالائے بام
چند دیواریں، شکستہ، ناتمام
نیچے اک سونی گلی کے موڑ پر
روز اپنے دیدۂ بے نور سے
ایک کھڑکی جھانکتی ہے دور سے
عمر گزری، عمر گزری دیکھتے
اب وہاں چھت پر کوئی آتا نہیں
کوئی سہما سایہ لہراتا نہیں
اب کسی آنچل کا عکس بے قرار
چوم کر اونچی منڈیروں کی جبیں
سیڑھیوں میں جا کے گم ہوتا نہیں
کھائے جاتی ہیں یہ دیواریں مجھے
ان فصیلوں میں گھرا ہے چار سو
اک مرا اجڑا سا شہرِ آرزو
کوئی اس دنیا کا بھی بدلے نظام
سینکڑوں خفتہ زمانوں کا خروش
کلبلا اٹھا ہے ہنگامہ بدوش
دوڑتی ہیں زلزلوں کے ساز پر
ایک دورِ نو کی خونیں انگلیاں
پھر بھی میرے اور تیرے درمیاں
کہنہ دیواریں ابھی موجود ہیں
کیوں مری چھوٹی سی دنیائے حزیں
اپنی قسمت کو پلٹ سکتی نہیں؟
کیوں نظر آتی نہیں بالائے بام
اب کسی کی جھینپتی، ہنستی نگاہ
کون بدلے اس مری دنیا کو، آہ!
 
فہرست