ارے یقینِ حیات

مجید امجد


یہ دور رفتہ تبسم جو میرے ہونٹوں پر
ترے اشارۂ ابرو سے لوٹ آیا ہے
یہ زیست کی سوغات!
سیاہیوں میں گھرے طاق و گنبد و ایواں
کی اوٹ سے یہ ابھرتی ہوئی شعاعوں کے
لپکتے بڑھتے ہات!
جو تیرے باغ کے گجرے کلائیوں میں لیے
سسکتے لمحوں کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں
بڑے غرور کے سات!
یہ ایک نقشِ کفِ پا، بہ سطح ریگِ رواں
ترے حریمِ فروزاں سے ایک اور چراغ
بہ سینۂ ظلمات!
خروشِ شام و سحر میں کشید ہوتی ہوئی
شرابِ غم کا یہ اک جام جس میں اتری ہے
تجلیوں کی برات!
یہ ایک جرعۂ زہراب جس میں غلطاں ہیں
تری نگاہ کا رس، تیرے عارضوں کے گلاب
ترے لبوں کی نبات!
اسی اسی ترے پیمانۂ نشاط کے دور
یونہی یونہی ذرا کچھ اور، اے یقینِ حیات
ارے یقینِ حیات!
 
فہرست