درسِ ایام

مجید امجد


سیلِ زماں کے ایک تھپیڑے کی دیر تھی
تخت و کلاہ و قصر کے سب سلسلے گئے
وہ دست و پا میں گڑتی سلاخوں کے روبرو
صدہا تبسموں سے لدے طاقچے گئے
آنکھوں کو چھیدتے ہوئے نیزوں کے سامنے
محرابِ زر سے اٹھتے ہوئے قہقہے گئے
ہر سانس لیتی کھال کھچی، لاش کے لیے
شہنائیوں سے جھڑتے ہوئے زمزمے گئے
دامن تھے جن کے خون کی چھینٹوں سے گلستاں
وہ اطلس و حریر کے پیکر گئے ، گئے
ہر کنجِ باغ ٹوٹے پیالوں کا ڈھیر تھی
سیلِ زماں کے ایک تھپیڑے کی دیر تھی
سیلِ زماں کے ایک تھپیڑے کی دیر ہے
یہ ہات، جھریوں بھرے ، مرجھائے ہات جو
سینوں میں اٹکے تیروں سے رستے لہو کے جام
بھر بھر کے دے رہے ہیں تمہارے غرور کو
یہ ہات، گلبن غمِ ہستی کی ٹہنیاں
اے کاش! انہیں بہار کا جھونکا نصیب ہو
ممکن نہیں کہ ان کی گرفتِ تپاں سے تم
تادیر اپنی ساعدِ نازک بچا سکو
تم نے فصیلِ قصر کے رخنوں میں بھر تو لیں
ہم بے کسوں کی ہڈیاں لیکن یہ جان لو
اے وارثان طرہ طرفِ کلاہ کے !
سیلِ زماں کے ایک تھپیڑے کی دیر ہے
 
فہرست