سنہری زلفوں کے مست سائے

مجید امجد


نہ پھر وہ ٹھنڈی ہوائیں لوٹیں
نہ پھر وہ بادل پلٹ کے آئے
نہ پھر کبھی شام کے نم آلود شعلہ زاروں پہ لڑکھڑائے
سنہری زلفوں کے مست سائے
سنہری زلفیں، جو اڑ کے لہرا کے اک شفق گوں محل کی چھت سے
گزر چلی تھیں گزرتے جھونکوں کی سلطنت سے
جھکیں مری سمت بھی گھٹاؤں کی تمکنت سے
کنارِ دل سے حدِ افق تک، تمام بادل، گھنیرے بادل
شراب کی مستیوں کے جھونکے ، گلاب کی پنکھڑیوں کے آنچل
خیال رم جھم، نگاہ جل تھل
پھر ایک اجڑے ہوئے تبسم کے ساتھ ہر سو
تلاش میں ہے گلوں کی خوشبو
کبھی پسِ در، کبھی سر کو
مگر وہ بادل؟
مگر وہ گیسو؟
 
فہرست