بہ فرشِ خاک

مجید امجد


آنکھیں میچوں، دھیان کروں تو صورت تیری، مورت تیری
من کے ہنستے بستے دیس کے رستے رستے پر مسکائے
تیری باہیں، گلگوں راہیں، میری جانب بڑھتی آئیں
تیری اکھیاں، جیون سکھیاں، دل کے تٹ پر راس رچائیں
چاروں کھونٹ گلابی ہونٹ نگہ کو رس کے گھونٹ پلائیں
لیکن جب میں ہات بڑھاؤں، تیرا دامن ہات نہ آئے
اکثر اکثر، سوچتے سوچتے ، یوں محسوس ہوا ہے مجھ کو
جیسے اک طوفان میں گھر کر، گر کر، پھول کی پتی ابھرے
لہر لہر کے ڈولتے شہر میں دھندلے دھندلے دیے لہرائیں
سکھ کی سا مگری سے نگری نگری کے آنگن بھر جائیں
گجرے لہکیں، سیجیں مہکیں، گھلتی سانس کے جھونکے آئیں
لیکن جب میں تجھ کو پکاروں، دور اک گونج کی میت گزرے
دل کے بے آواز جزیرے میں چھپ چھپ کے ، چپکے چپکے
آنے والو! کیوں چھپتے ہو؟ گھونگھٹ کھولو، ہنس ہنس بولو
اب تک ہم نے سنوارے نکھارے ، منزل منزل، رستے رستے
خوابوں کے مسحور خرابوں میں ارمانوں کے گلدستے
اس مٹی کے گھروندے میں بھی اک دن بیٹھ کے ہنستے ہنستے
اپنے ہات سے میری چائے کی پیالی میں چینی گھولو!
 
فہرست