رفتگاں

مجید امجد


رات تھی اور نیم تاباں مشعلوں کی روشنی
رات تھی اور پیاسی آنکھوں، ہنستے چہروں کے ہجوم
سامنے میزوں پہ رنگارنگ جام
پی رہے تھے ہونٹ ارمانوں کی آگ!
جب بھی تار ارغنوں سے آ کے ٹکراتی کسی وحشی تمنا کی پکار
جھن جھنا اٹھتیں دلوں کی بستیاں
اپنی پلکوں کو جھکا لیتیں چراغوں کی لویں
ناچتے جسموں کے جنگل میں بھڑکنے لگتی ارمانوں کی آگ
آہ وہ محدود آہنگوں میں لپٹے زمزمے
جیسے طوفاں میں گھری کشتی سے کوئی ساحلِ گم گشتہ کو آواز دے !
آہ وہ مجروح سینوں سے ابلتے قہقہے
جیسے انگاروں بھرے جھکڑ میں کوئی بے اماں راہی پکارے
منزلِ روپوش کو!
ہائے وہ مدہوش لوگ
مست پنچھی، جن کے جلتے پنکھ ان کی آتشِ دل کو ہوا دیتے گئے
کس گپھا میں کھو گئے ؟
کیا انہیں سکھ کی کہیں بھی وہ کرن حاصل ہوئی
وہ کرن جو رات بھر ان نیم تاباں مشعلوں کے روپ میں ہنستی رہی
وہ کرن جو ان کی دنیا میں چمک کر ان کے دل میں بجھ گئی!
 
فہرست