آؤ، آج ان مست ہواؤں میں بہہ جائیں

مجید امجد


کب تک گزری باتیں یاد کریں، پچھتائیں
آؤ، آج ان مست ہواؤں میں بہہ جائیں
ٹوٹے پیمانوں کی ٹھیکریوں کے سفینے
بیتے سمے یادوں کی رو میں بہتے جائیں
کس کو بتائیں اب یہ جو الجھن آن پڑی ہے
جب تک تم کو بھول نہ پائیں، یاد نہ آئیں
اکثر اکثر دوری سمٹی، رستے پھیلے
منزل! تیرا قربِ گریزاں، کیا بتلائیں
ان سنگین حصاروں میں دل کا یہ جھروکا
گونجیں جس میں ٹھٹکتے قدموں کی پرچھائیں
فہرست