موجِ تبسم

مجید امجد


ستاروں کو نہ آتا تھا ابھی تک مسکرا اٹھنا
دیے بن کر یوں ایوانِ فلک میں جگمگا اٹھنا
حسیں غنچوں کے رنگیں لب تھے ناواقف تبسم سے
چمن گونجا نہ تھا اب تک عنادل کے ترنم سے
نہ پروانے تھے جلتے شمعِ سوزاں کے شراروں میں
نہ آئی تھی ابھی ہمت یہ ننھے جاں نثاروں میں
ابھی گہوارۂ ابرِ بہاری میں وہ سوتی تھی
نہ بجلی یوں شرر بار اور خرمن سوز ہوتی تھی
نہ اب تک ارتعاشِ نغمہ تھا بربط کے تاروں میں
نہ اب تک گونجنے پائے تھے نغمے نغمہ زاروں میں
نہ اب تک آبشاریں پتھروں سے سر پٹکتی تھیں
نہ اب تک رونے دھونے میں یوں راتیں ان کی کٹتی تھیں
سمجھتا تھا نہ دل اب تک نشاط و رنج و کلفت کو
نہ چھیڑا تھا ابھی تک اس نے اپنے سازِ الفت کو
ابھی تیروں کو ترکش ہی میں ڈالے دیوتا کیوپڈ
کھڑا خالی کماں کو تھا سنبھالے دیوتا کیوپڈ
جہاں پر حکمراں تھی ایک ہیبت خیز خاموشی
مصیبت ریز، خوف آمیز، ہول انگیز خاموشی
یکایک بجلیاں ٹوٹیں فغان بزمِ ہستی میں
ہزاروں جاگ اٹھے فتنے اس دنیا کی بستی میں
خموش و پرسکوں عالم میں دوڑی روحِ بیتابی
ہوئی ہر ذرۂ رقصاں میں پیدا شانِ سیمابی
سمندر کی روانی ہو گئی تبدیل طوفاں میں
پڑا نورس گلوں کے قہقہوں کا غل گلستاں میں
شبستانوں سے رندوں کی صدائے ہاوہو اٹھی
دبستانوں سے بلبلِ کی نوائے ہاوہو اٹھی
پٹکنے لگ گئی سرِ جوئے کہساری چٹانوں سے
مچل کر بجلیاں ٹوٹیں زمیں پر آسمانوں سے
اٹھایا شورافزا آبشاروں نے رباب اپنا
سنایا گا کے سبزے کو گزشتہ شب کا خواب اپنا
حیاتِ تازہ یوں دوڑی دلوں کی کائناتوں میں
کہ جیسے برق چمکے برشگالی کالی راتوں میں
یمِ ہستی میں کیف و نور کا سیلِ رواں آیا
ریاضِ دہر میں اک رنگ و بو کا کارواں آیا
جہاں بس رہ گیا بن کر طلسمِ کیف و سرمستی
نشوں کی ایک دنیا اور کیفیات کی بستی
فلک اک گنبدِ زریں، زمیں اک بقعۂ نوریں
یہ ساری کائناتِ شش جہت اک جلوۂ رنگیں
یہ موجِ بحرِ امکاں جلوۂ موجِ تبسم ہے
چمک کر جو ترے لب پر فروغ افزائے عالم ہے
تبسم جس کی رنگینی ترے ہونٹوں پہ رقصاں ہے
تبسم آہ جس کا رقص مضراب رگِ جاں ہے
 
فہرست