اقبال

مجید امجد


اقبال! کیوں نہ تجھ کو کہیں شاعرِ حیات
ہے تیرا قلب محرمِ اسرار کائنات
سرگرمیِ دوام ہے تیرے لیے حیات
میدانِ کارزار ہے تجھ کو یہ کائنات
مشرق تری نظر میں ہے امید کا افق
مغرب تری نگاہ میں ہے غرق سئیات
یورپ کی ساری شوکتیں تیرے لیے سراب
ہنگامۂ تمدنِ افرنگ، بے ثبات
اسلامیوں کے فلسفے میں دیکھتا ہے تو
مظلوم کائنات کی واحد رہِ نجات
تیرا کلام جس کو کہ بانگِ درا کہیں
ہیں اس کے نقطے نقطے میں قرآن کے نکات
بھولے ہوؤں کو تو نے دیا درسِ زندگی
زیبا ہے گر کہیں تجھے خضرِ رہِ حیات
سینے میں تیرے عشق کی بیتاب شورشیں
محفل میں تیری قدس کی رقصاں تجلیات
عریاں تیری نگاہ میں اسرارِ کن فکاں
مضمر ترے ضمیر میں تقدیرِ کائنات
دنیا کا ایک شاعرِ اعظم کہیں تجھے
اسلام کی کچھار کا ضیغم کہیں تجھے
 
فہرست