ہوائی جہاز کو دیکھ کر

مجید امجد


یہ تہذیب اور سائنس کی ترقی کا زمانہ ہے
رہے گا یوں بھلا کب تک درندوں کی طرح انساں
یہ علم و دانش و حکمت کا ادنیٰ سا کرشمہ ہے
ہوا میں لگ گیا اڑنے پرندوں کی طرح انسان
وہ دیکھو ہیں فضا میں مائلِ پرواز طیارے
گرجتے ، گھومتے ، گرتے ، سنبھلتے اور چکراتے
فضائے آسماں کی سیر کرنے والے سیارے
وہ دیکھو جا رہے ہیں گنگناتے ، گونجتے ، گاتے
ادھر وہ خوش نصیب اور صاحبِ اقبال انسان ہیں
جنہیں بخشی گئی ان برق پازوں کی عناں گیری
ادھر وہ ذوقِ علم و فن سے مالامال انسان ہیں
جنہیں سونپی گئی دنیائے حکمت کی جہانگیری
ادھر ہم لوگ ہیں کیفیتِ فکر و نظر جن کی
جہاں میں قوتِ پرواز سے محروم رہتی ہے
ادھر ہم لوگ ہیں دنیا میں جن کی مضمحل ہستی
حیاتِ جاؤداں کے راز سے محروم رہتی ہے
اگر یہ آرزو انساں کے دل میں جلوہ گر ہو گی
کہ چھن جائیں نہ عیشِ سرمدی کی نزہتیں اس سے
تو اس کی زندگی تابندہ تر پائندہ تر ہو گی
فقط سعیِ مسلسل سے فقط ذوقِ تجسس سے
 
فہرست